از.. ممتاز علی خاکسار میرپور
میری قلم کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ جو دیکھوں اس کو خدا کو حاضر ناضر جان کر انتہائی غیر جانبداری اور بے باکی کے ساتھ سپرد حقیقت کردوں. آج بھی جو کچھ سپرد حقیقت کرتے ہوئے آپ کے سامنے جو کچھ رکھ رہا ہوں. کسی سے سنی سنائی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس سارے واقع میں ہر جگہ میں خود موجود ہوں……
مورخہ 25 اور 26 جون کی رات کا آخری پہر رات 3:15 بجے ایک مریض کے ہاتھ کو کوئی زہریلی چیز کاٹ لیتی ہے. پتہ نہیں کیا تھا. سانپ یا کوئی کیڑا یا کچھ اور……. اسی کشمکش اور زہنی الجھاو کی کیفیت میں مریض میرپور کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال جسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر. ڈویژنل ہیڈ کوارٹرسمیت ٹیچنگ ہسپتال کا درجہ بھی حاصل ہے پہنچ آتا ہے.
مریض فی میل ہے اور ٹراما سنٹر کا پروٹوکول یہ ہے کہ فی میل کو فی میل ڈاکٹر چیک کریگی لیکن وہ فی میل ڈاکٹر جن کا نام غالباً ڈاکٹر خوشبخت شجاعت ہے ڈیوٹی کے روسٹر پر تو موجود تھیں لیکن ٹراما سنٹر میں نہیں تھیں جس کی وجہ سے مریض کا چیک اپ وہاں موجود کسی پی جی میل ڈاکٹر نے کیا.
جس کا نام معلوم نہیں البتہ روسٹر کے مطابق جس میل ڈاکٹر احمد حسین کی ڈیوٹی تھی وہ کسی دیگر مریض کو چیک کرنے میں مصروف تھے. اب باری آتی ہے مریض کو کنولہ پاس کرنے کی تو ایک ان ٹرینڈ پچی آتی ہے وہ کنولہ کو کم و بیش 4 مرتبہ بازو کے مختلف حصوں پر پریک کرتی ہے لیکن کنولہ پاس نہی ہوتا اور پھر ایک میل سٹاف آتا ہے وہ فوری وین کو تلاش کر کے کنولہ پاس کر دیتا ہے.
اس مرحلے کو کم و بیش 15 سے 20 منٹ لگ جاتے ہیں اور جس مریض کو خدانخواستہ کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا ہو تو اس کا تو ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے. بحرل ساتھ ہی دو انجکشن حفاظت کے طور پر لگا دیے جاتے ہیں اور لیبارٹری سے سی ٹی. بی ٹی ٹیسٹ کروانے کے لیے رسید بنا کر مریض کے اٹینڈنٹ کے حوالہ کر دی جاتی ہے. اب مریض ایمرجنسی میں ہے اور اٹینڈنٹ لیبارٹری کی طرف دوڑ لگا دیتا ہے. جب لیبارٹری پہنچتا ہے تو وہاں روسٹر کی ڈیوٹی فریم کے مطابق تین لوگ حسنین. عاطف اور اسامہ مامور ہیںلیکن موقعہ پر اکیلا کم عمر لڑکا حسینن پوری لیبارٹری کو دیکھ رہا ہے.
اس نے کیش رسید بھی بنانی ہے. ٹیسٹ کی فیس بھی وصول کرنی ہے. اٹینڈنٹ تقریباً 20 منٹ تک جدو جہد کر کے لیبارٹری سے اس لیبارٹری ٹیکنیشن حسنین کو مریض کے پاس لے آتا ہے کیونکہ سپمل بھی اسی حسنین نے لینا تھا یعنی 20 منٹ کنولہ کی گیم میں خرچ ہو گئے اور 20 منٹ لیبارٹری کی گیم یعنی فیس کی ادائیگی. کیش کی رسید بنانےمیں اور اٹینڈنٹ سے ٹیکنیشن کے سوال جواب کیا ہوا. کیسے ہوا. منہ سے یا ناک سے خون تو نہیں نکلا. اگر خون جم جائے تو ٹھیک ہے نہ جمے تو خطرہ ہے کی طرح کی باتوں پر خرچ ہو گئے یعنی 40 منٹ….
انتہائی قیمتی وقت کا ضیاء…… بحرل مریض کا ٹیسٹ نارمل آیا… اور جان بچ گئی اور اگر خدانخواستہ واقعی اس مریض کو کسی سانپ نے ڈسا ہوتا تو کیا یہ مرض سروائیو کرپاتا؟ اگر ٹراما سنٹر کے روسٹر پر فی میل ڈاکٹر صاحبہ کی ڈیوٹی مامورگی پر ہے تو مریض کو چیک میل ڈاکٹر نے کیوں کیا؟
اگر روسٹر پر لیبارٹری میں تین افراد کی مامورگی موجود ہے تو رات کے پونے چار بجے باقی دو افراد عاطف اور اسامہ کدھر تھے؟ اور ٹراما سنٹر کو ایسی ان ٹرینڈ بچیوں کے کیوں حوالے کیا گیا ہوا ہے جو چار چار مرتبہ کنولہ پریک کرتی ہیں؟ کیا ٹراما سنٹر جہاں پر ایک لمحہ کی غفلت اور لاپرواہی کسی کی قیمتی جان لے سکتی ہے سٹاف کی اس طرح مبینہ غفلت اور نا اہلی کا متحمل ہو سکتا ہے؟
اس بات میں دوسری کوئی رائے نہیں کہ ڈاکٹر عامر عزیز صاحب نے بطور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہسپتال کو بہتر کرنے کے لیےاور اس کو مثالی بنانے کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے. جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے ہسپتال کی بہتری اور عوام کی سہولیات کو ممکن بنانے کے لیے کام ہو رہا ہے. رات کو بن بتائے ان کے چھاپوں کی خبریں بھی گردش کرتی ہیں. تو پھر کیا وجہ ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود پھر صریحاً غفلت. لاپرواہی اور کوتاہی کیوں؟ …….
میں سمجھتا ہوں کہ ہسپتال میں ایک ایسا مافیا کام کر رہا ہے جو ڈاکٹر عامر عزیز کی صلاحیتوں سے خائف ہو کر ہسپتال کے اندر ایسی سازشیں کرنے میں مصروف ہے جس سے شہریوں کے دلوں میں ڈاکٹر عامر عزیز کے متعلق نفرت اور عقارت پیدا ہو..
بحرحال آج اس معاملے میں میری ایم ایس ڈاکٹر عامر عزیز سے تفصیلی میٹنگ ہوئی اور تحریری طور پر ان سارے واقعات سے آگاہ کیا جنہوں نے معاملے کی چھان بین کے لیے اور سزا کے تعین کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے اس موقع پر ڈی ایم ایس ڈاکٹر ماجد الطاف.منتظم مبشر عزیز اور دیگر بھی موجود تھے…. امید ہے ایم ایس اس معاملہ پر سخت ترین ایکشن لیکر متعلقین کے خلاف محکمامہ طور پر انضباطی کاروائی کریں گے. تاکہ ایک عام آدمی کی زندگی اور صحت کو سرکاری ہسپتال کے ٹراما سنٹر میں تحفظ مل سکے……